_
جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ ہو جس سے سات بالیاں پیدا ہوں، اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کیلئے چاہتا ہے اور کئی گنا بڑھاتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔ (261) جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر جو انہوں نے خرچ کیا اس کے بعد نہ احسان جتاتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں، ان کیلئے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، اوران پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (262) اچھی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے پیچھے اذیت پہنچانا ہو۔ اور اللہ بے نیاز ہے، بڑا حلم والا ہے۔ (263) اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو برباد مت کرو احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کیلئے خرچ کرتا ہے، اور وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتا ہے، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان ہو، جس پر کچھ مٹی ہو، پھر اس پر زور کی بارش برسے تو وہ اس کو بالکل صاف کر کے چھوڑ دے۔ ایسے لوگوں کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اس میں سے جو انہوں نے کمایا ہے۔ اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ (264) اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال خرچ کرتے ہیں اللہ کی رضا چاہنے کیلئے اور اپنے آپ کو ثابت قدم رکھنے کیلئے، ایک ایسے باغ کی مانند ہے جو کسی اونچی جگہ پر ہو، اس پرزور کی بارش آجائے تو وہ اپنا پھل دوگنا لائے ، پھر اگر اسے زور کی بارش نہ بھی پہنچے تو ہلکی پھوار ہی کافی ہے۔ اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔ (265) کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں، اس میں اس کے واسطے ہر قسم کے پھل ہوں اور اس پر بڑھاپا آ جائے، اور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں۔ پھر اس پر ایک بگولہ آجائے جس میں آگ ہو تو وہ باغ جل جائے؟ اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔ (266)سورہ : بقرہ .... رکوع: 36 .... آیت: 261- 266 .... پارہ: 3
صدقہ و انفاق اللہ کو بہت پسند ہے۔ جو لوگ خدا کا بخشا ہوا مال اس کے نام پر اور اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتے وہ ان کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ اللہ نے قرآن مجید میں جا بجا اس کی تاکید کی ہے کہ اس کا عطا کردہ مال و دولت اس کی خوش نودی و رضا جوئی کیلئے خرچ کرتے رہو۔ یہاں اس کی اہمیت اور قدر و قیمت واضح کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اس کی مثال اس دانے کی ہے جس سے سات بالیاں نکلتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں یعنی ایک کا بدلہ سات سو بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی کئی گنا زیادہ دیا جاتا ہے۔
صدقہ کے بعد احسان جتانا اور کسی بھی طرح تکلیف پہنچانا ایک ایسا عمل ہے جو صدقہ کا دشمن ہے اور اس کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ اس سے اچھا تھا کہ تم صدقہ اور امداد کے بجائے چند میٹھا جملہ بول دیتے اور معذرت کرلیتے، تم نے تو سامنے والے کو دکھ دے کر اپنے کیے کرایے پر پانی پھیردیا۔ یہ بات یہاں مثالوں سے بھی واضح کردی گئی ہے تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ اسی کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ جو لوگ اس لئے صدقہ کرتے ہیں کہ وہ خدا کو راضی کریں اور اپنے دل و دماغ کو خدا کے دین پر مضبوطی کے ساتھ جمادیں تو اللہ ان کے مال و دولت میں بے تحاشا برکت دیتا ہے اور ان کا باغ سدا ہرا بھرا رہتا ہے۔ اور وہ لوگ جو محض دنیا کو دکھانے کیلئے صدقہ کرتے ہیں ان کا صدقہ اس برکت سے محروم رہتا ہے جس کا وعدہ یہاں اللہ نے اپنے نیک بندوں سے کیا ہے۔ اللہ جب چاہے ان کے باغ میں آگ کا بگولہ بھیج دے جو ان کے باغ کو جلا کر راکھ کردے اور وہ حسرت و افسوس کے ساتھ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔٭
از: ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ
(10مئی 2024 )
Jibreel School | Islamic School in Kolkata | Muslim School in Kolkata | Muslim English Medium School in Kolkata | Islamic and Modern Education in Kolkata | Best Islamic School in Kolkata | Best Muslim School in Kolkata | Units of Jibreel International Islamic School | Muslim Private School in Kolkata | First Islamic School in Kolkata
No comments:
Post a Comment