کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے گھروں سے نکل گئے تھے موت کے ڈر سے، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ تو اللہ نے ان سے کہا کہ مر جاؤ، پھر اس نے ان کو زندہ کردیا۔ بے شک اللہ لوگوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ (243) اور اللہ کی راہ میں قتال کرو اور جان لو کہ اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ (244) کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے ، تو وہ اس کو بڑھا چڑھا کر اس کے لئے کئی گنا کر دے، اور اللہ ہی گھٹاتا اور بڑھاتاہے، اورتم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (245) کیا تم نے موسیٰ کے بعد ، بنی اسرائیل کے سرداروں کو نہیں دیکھا، جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ ہمارے لئے کسی کو بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ ہم اللہ کی راہ میں قتال کریں۔ اس نے کہا، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر قتال فرض کر دیا جائے تو تم قتال نہ کرو، وہ بولے، ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں قتال نہ کریں حالانکہ ہم ہمارے گھروں سے اور ہمارے بچوں سے نکالے گئے ہیں ؟ پھر جب ان پر قتال فرض کر دیا گیا تو ان کی ایک قلیل تعداد کے سوا سب نے منہ موڑ لیا۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔ (246) اوران کے نبی نے ان سے کہا ،بے شک اللہ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ بولے، اس کو ہم پر بادشاہت کیسے مل سکتی ہے جب کہ ہم اس سے زیادہ بادشاہت کے حق دار ہیں اور اس کو تو مال کی وسعت بھی نہیں دی گئی ہے؟ اس نے کہا ، بلاشبہ اللہ نے تمہارے مقابلہ میں اس کو چن لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی عطا کی ہے اور اللہ اپنی سلطنت جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ بڑی وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ (247) اوران کے نبی نے ان سے کہا، بے شک اس کی بادشاہت کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ تابوت آ جائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسکین کا سامان ہے اور آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کی باقی ماندہ یادگاریں ہیں، اس کو فرشتے اٹھا کر لائیں گے، بے شک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے، اگر تم مومن ہو۔ (248)
سورہ : بقرہ .... رکوع: 32 .... آیت: 243- 248 .... پارہ: 2
اس رکوع میں بنی اسرائیل کے دو اہم واقعات کا ذکر ہے۔ ایک کا مختصر ذکر ہے جبکہ دوسرا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ یہ دونوں واقعات اللہ کی راہ میں جانی و مالی قربانی کی ضرورت و اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔ اسی لئے یہاں درمیان میں یہ بھی فرمایا گیا ہے ”اور اللہ کی راہ میں قتال کرو اور جان لو کہ اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے، تو وہ اس کو بڑھا چڑھا کر اس کے لئے کئی گنا کر دے، اور اللہ ہی گھٹاتا اور بڑھاتاہے، اورتم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔“
یہاں اس رکوع میں مذکور پہلے واقعہ کے تعلق سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے واقعہ خروج کی طرف اشارہ ہے اور بعض کے مطابق بنی اسرائیل کی اس ابتر حالت کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر صحیفہ سموئیل میں ہے۔ دوسرا واقعہ تورات میں موجود تفصیلات کے مطابق تقریباً ایک ہزار برس قبل مسیح کا ہے۔ اس وقت سموئیل نبی بنی اسرائیل کے سربراہ تھے اور ان کی حالت بہت خراب تھی۔ چاروں طرف سے دشمن ان پر حملہ آور تھے اور عمالقہ نے ان کے اکثر علاقے ان سے چھین لیے تھے بلکہ ان کا وہ تابوت جسے تورات میں ’خدا کا صندوق‘ یا ’خدا کے عہد کا صندوق‘ کہا گیا ہے اور جس میں موسیٰ ؑو ہارونؑ کے بہت سارے تبرکات محفوظ تھے، بنی اسرائیل کے دشمنوں نے ان سے چھین لیا تھا۔
جب اللہ کے نبی نے یہ اعلان کیا کہ اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر کیا ہے تو انہوں نے اس کو قبول کرنے میں بہت پس و پیش سے کام لیا۔ طالوت کا نام تورات میں ’ساؤل‘ آیا ہے۔ اللہ نے ان کو علم اور جسم کی دولت سے مالا مال کیا تھا اور یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کو عام لوگوں سے ممتاز کرتی ہیں اور اس کو قائدانہ رول ادا کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اللہ نے طالوت کی بادشاہت کے ثبوت کے طور پر بنی اسرائیل کو ان کا صندوق ایک خاص انداز میں فرشتوں کے ذریعہ واپس کردیا۔ اس تابوت نما صندوق کی واپسی نے بنی اسرائیل کی ٹیڑھی کمر سیدھی کردی اور وہ پھر سے نئے عزم و قوت کے ساتھ اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے کیلئے تیار ہوگئے۔ یہ واقعہ تورات میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔٭
از: ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ
(5اپریل 2024 )
Jibreel School | Islamic School in Kolkata | Muslim School in Kolkata | Muslim English Medium School in Kolkata | Islamic and Modern Education in Kolkata | Best Islamic School in Kolkata | Best Muslim School in Kolkata | Units of Jibreel International Islamic School | Muslim Private School in Kolkata | First Islamic School in Kolkata
No comments:
Post a Comment