اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا، اپنی لاٹھی پتھر پر مارو تو اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ ہر گروہ نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان لیا۔ کھاؤ اور پیو اللہ کے رزق میں سے اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ (60) اورجب تم نے کہا، اے موسیٰ! ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہیں کر یں گے تو اپنے رب سے ہمارے لیے دعا کرو کہ وہ ہمارے لئے وہ چیزیں نکالے جو زمین اگاتی ہے اپنی سبزیوں، ککڑیوں، لہسن، مسور اور پیاز میں سے۔ اس نے کہا، کیا تم ایک بہتر چیز کے بدلے میں کم تر چیز طلب کرتے ہو؟ کسی شہر میں اترجاؤ تو وہ چیز تمہیں ملے گی جو تم نے طلب کی ہے۔ اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ یہ اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے بڑھ جانے والے تھے۔ (61)
.... سورہ : بقرہ .... رکوع: 7 .... آیت: 60 - 61 ....
اس رکوع میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تورات میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ جب بنی اسرائیل صحرائے سینا کے میدان تیہ میں تھے اس وقت ان کو پینے کا پانی دستیاب نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ وہ پتھر کی چٹان پر اپنی لاٹھی ماریں۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ کے حکم سے اس چٹان سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ یعقوبؑ کی بارہ اولادوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آگئے تھے۔ جب بارہ چشمے پھوٹ نکلے تو ہر قبیلے نے اپنے لئے ایک گھاٹ متعین کرلیا اور ایک اہم مسئلہ خوبصورتی سے حل ہوگیا۔م حققین کے مطابق وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیاح اسے جاکر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر انعامات کی بے مثال بارش کی مگر انہوں نے بار بار ناشکری و ناقدری کا مظاہرہ کیا۔ اللہ نے ان کو کھانے کیلئے منّ و سلویٰ عطا کیا مگر وہ بہت جلد اس سے اکتا گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ سبزی، ککڑی، لہسن، مسور اور پیازوغیرہ کھانا چاہتے ہیں۔ وہ بہت دنوں تک من و سلویٰ کھاکر نہیں رہ سکتے۔ موسیٰ ؑ نے ان کو سمجھایا کہ وہ اللہ کی عظیم نعمت کو جو خاص ان کیلئے اتاری جارہی ہے چھوڑ کر ان چیزوں کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں جو عام اور معمولی ہیں مگر انہوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ یہ بات اللہ کی ناراضگی کا سبب بنی۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے دیگر جرائم کا ارتکاب کیا۔ وہ اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے تھے، اللہ کے نبیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے یہاں تک کہ ان کو ناحق قتل تک کردیتے تھے۔ ان کی نافرمانیوں اور سرکشیوں نے ان کو اللہ کی جانب سے لعنت و ملامت اور غیظ و غضب کا مستحق ٹھہرادیا اور ذلت و مسکنت ان کے اوپر تھوپ دی گئی۔ ٭٭٭
از: ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ
(6اکتوبر 2023 )
اس رکوع میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تورات میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ جب بنی اسرائیل صحرائے سینا کے میدان تیہ میں تھے اس وقت ان کو پینے کا پانی دستیاب نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ وہ پتھر کی چٹان پر اپنی لاٹھی ماریں۔ جب انہوں نے ایسا کیا تو اللہ کے حکم سے اس چٹان سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ یعقوبؑ کی بارہ اولادوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آگئے تھے۔ جب بارہ چشمے پھوٹ نکلے تو ہر قبیلے نے اپنے لئے ایک گھاٹ متعین کرلیا اور ایک اہم مسئلہ خوبصورتی سے حل ہوگیا۔م حققین کے مطابق وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیاح اسے جاکر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر انعامات کی بے مثال بارش کی مگر انہوں نے بار بار ناشکری و ناقدری کا مظاہرہ کیا۔ اللہ نے ان کو کھانے کیلئے منّ و سلویٰ عطا کیا مگر وہ بہت جلد اس سے اکتا گئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ وہ سبزی، ککڑی، لہسن، مسور اور پیازوغیرہ کھانا چاہتے ہیں۔ وہ بہت دنوں تک من و سلویٰ کھاکر نہیں رہ سکتے۔ موسیٰ ؑ نے ان کو سمجھایا کہ وہ اللہ کی عظیم نعمت کو جو خاص ان کیلئے اتاری جارہی ہے چھوڑ کر ان چیزوں کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں جو عام اور معمولی ہیں مگر انہوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا۔ یہ بات اللہ کی ناراضگی کا سبب بنی۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے دیگر جرائم کا ارتکاب کیا۔ وہ اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے تھے، اللہ کے نبیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے یہاں تک کہ ان کو ناحق قتل تک کردیتے تھے۔ ان کی نافرمانیوں اور سرکشیوں نے ان کو اللہ کی جانب سے لعنت و ملامت اور غیظ و غضب کا مستحق ٹھہرادیا اور ذلت و مسکنت ان کے اوپر تھوپ دی گئی۔ ٭٭٭
از: ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ
(6اکتوبر 2023 )
No comments:
Post a Comment