کیا آپ نے اس کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں اس لئے حجت کی، کہ اللہ نے اس کو سلطنت دی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا، میرا رب تو وہ ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے۔ اس نے کہا ، میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا، بے شک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اس کو مغرب سے نکال دے، تو وہ کافر حیران رہ گیا۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (258) یا جیسے کہ وہ شخص جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں کے اوپر اوندھی پڑی تھی۔ اس نے کہا، اللہ اس کو اس کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے اس پر سو سال کیلئے موت طاری کردی، پھر اس کو اٹھایا اور پوچھا، تم کتنی دیر اس حال میں رہے؟ اس نے کہا ، میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہا۔ اس نے فرمایا، بلکہ تم سو سال تک رہے، اب تم اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو وہ بالکل بھی خراب نہیں ہوئیں، اور ذرا اپنے گدھے کو دیکھو اور تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے نشانی بنائیں اور ہڈیوں کی طرف دیکھو، کیسے ہم ان کا ڈھانچہ کھڑا کرتے ہیں پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ پھر جب اس پر سب کچھ واضح ہو گیا، تو اس نے کہا، میں جانتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (259) اور جب ابراہیم نے کہا، اے میرے رب ! مجھے دکھا دے کہ تو مُردوں کو کیسے زندہ کرے گا ؟ اس نے فرمایا، کیا تم اس پر ایمان نہیں رکھتے؟ اس نے کہا، کیوں نہیں؟ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرا دل مطمئن ہو جائے۔ اس نے فرمایا، تم پرندوں میں سے کوئی چار لے لو اور ان کو اپنے سے مانوس کرلو پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک حصہ رکھ دو، پھر انہیں بلاؤ، وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے۔ اور جان لو کہ بے شک اللہ سب پر غالب ہے،بڑی حکمت والا ہے۔ (260)
سورہ : بقرہ .... رکوع: 35 .... آیت: 258- 260 .... پارہ: 3
جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے وہ اس کو سیدھی راہ دکھا دیتا ہے اور اس کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے آتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا دوست اور سرپرست بنا لیتے ہیں وہ ان کو سیدھی راہ سے دور کرنے اور گھٹا ٹوپ اندھیروں میں غرق کردینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔ یہاں اس رکوع میں مذکور تینوں واقعات اس حقیقت کو بہترین طریقے سے واضح کرتے ہیں۔
پہلا واقعہ اس بادشاہ کا ہے جو طاغوت کا پرستار تھا اور خود کو سورج دیوتا کا اوتار سمجھتا تھا۔ اس کے اندر اتنی طاقت بھی نہیں تھی کہ وہ سورج کو اپنی مرضی کے مطابق پورب کے بجائے پچھم سے نکال دے مگر وہ خود کو کسی خدا سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ اس نمرود نے ابراہیم ؑ سے رب کے بارے میں بحث کی اور بری طرح ناکام و پشیمان ہوا۔
دوسرا واقعہ ایک ایسے آدمی کا ہے جس نے ایک تباہ حال بستی کو دیکھ کر یہ سوچا کہ اس بھیانک تباہی کے بعد اللہ اس میں مرجانے والوں کو کس طرح دوبارہ زندہ کرے گا۔ وہ اللہ کا ایک نیک بندہ تھا۔ یہاں قرآن میں اس کا نام موجود نہیں ہے مگر عین ممکن ہے کہ یہ بنی اسرائیلی نبی حزقی ایل کا واقعہ ہو کہ ایسا ہی ایک واقعہ ان سے متعلق توارت میں موجود ہے۔ اللہ نے اس کو سو سال کی موت اور پھر زندگی دے کر اور اس کے گدھے کو سوکھے ڈھانچے سے صحیح سلامت بناکر اس پر یہ حقیقت اس طرح روشن کردی کہ وہ اس کیلئے حق الیقین کا باعث بن گیا۔
یہاں آخری واقعہ ابراہیم ؑ کا ہے جب انہوں نے حیات بعد الممات کو سمجھنے کیلئے اللہ سے ہدایت و مدد طلب کی اور اللہ نے ان پر بھی اس حقیقت کو اس طرح آشکار کردیا کہ ان کو پوری طرح اطمینان قلب حاصل ہوگیا اور ان کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ اللہ ہر چیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے اور اس کیلئے انسانوں کو ان کی موت کے بعد دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔٭
از: ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ
(3 مئی 2024 )
Jibreel School | Islamic School in Kolkata | Muslim School in Kolkata | Muslim English Medium School in Kolkata | Islamic and Modern Education in Kolkata | Best Islamic School in Kolkata | Best Muslim School in Kolkata | Units of Jibreel International Islamic School | Muslim Private School in Kolkata | First Islamic School in Kolkata
No comments:
Post a Comment