اور جب تم عورتوں کو طلاق دو، پھر وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں تو ان کو نہ روکو کہ وہ اپنے شوہروں سے نکاح کر لیں جبکہ وہ معروف طریقہ کے مطابق آپس میں راضی ہوں، یہ نصیحت کی جاتی ہے تم میں سے اس شخص کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ یہی تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ اور صاف ستھرا طریقہ ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔ (232) اور مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں، ان لوگوں کے لئے جو ارادہ رکھتے ہوں کہ رضاعت کی مدت پوری کریں۔ اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ ہے ان عورتوں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق۔ کسی کو بھی اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ نہ کسی ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ کسی باپ کو اس کے بچے کی وجہ سے۔ اور وارث پر بھی اسی طرح کی ذمہ داری ہے۔ پھر اگر دونوں دودھ چھڑانے کا ارادہ کرلیں باہمی رضامندی اور باہمی مشورے سے، تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں، اور اگر تم ارادہ کر لو کہ اپنے بچوں کو کسی اور سے دودھ پلواؤ، تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، جبکہ تم ان کو پورا پورا ادا کر دو جو بھی معروف طریقہ کے مطابق دینا طے کیا ہے، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ جو بھی تم کرتے ہو اللہ اس کو خوب دیکھنے والا ہے۔ (233) اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں تو جب وہ اپنی مدت کو پہنچ جائیں، تو تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں ہے جو کچھ وہ اپنے حق میں معروف طریقہ کے مطابق کریں، اور اللہ ان کاموں سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ (234) اور تم پر کوئی گناہ نہیں اس بات میں کہ تم ان عورتوں کو اشارہ سے نکاح کا پیغام دو یا اپنے دل میں چھپائے رکھو، اللہ کو معلوم ہے کہ تم ضرور ان کا ذکر کرو گے لیکن تم ان سے کوئی پوشیدہ عہد و پیمان نہ کرنا سوائے اس کے کہ تم کوئی معروف بات کہہ دو، اور عقدِ نکاح کا ارادہ نہ کرو یہاں تک کہ مقررہ مدت اپنی انتہا کو پہنچ جائے، اور جان لو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، تو تم اس سے ڈرتے رہو، اور جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا حلم والا ہے۔ (235)
سورہ : بقرہ .... رکوع: 30 .... آیت: 232- 235 .... پارہ: 2اللہ تعالیٰ نے اس رکوع میں طلاق یافتہ اور بیوہ عورت کے تعلق سے نہایت واضح لفظوں میں یہ ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی عدت گزارنے کے بعد اس بات کیلئے پوری طرح آزاد ہیں کہ وہ جس سے چاہیں نکاح کرسکتی ہیں۔ اگر کوئی سابق شوہر یا سابق خاندان کا کوئی فرد اس کو نکاح کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اللہ کے قانون سے بغاوت کرتا ہے۔ یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بیوہ کی عدت مطلقہ کی عدت سے مختلف ہے۔ اگر کسی کا شوہر انتقال کرجائے تو اس کی عدت چار مہینہ دس دن ہے۔ اس کے بعد اس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مرد سے نکاح کرکے اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کرسکتی ہے۔ یہ اختیار اس کو اللہ نے عطا کیا ہے، اگر کوئی اس کو اس سے روکنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اللہ کی نگاہ میں جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔
جب ایک عورت عدت کی مدت گزار رہی ہو تو یہ بات مناسب نہیں ہے کہ اس کو نکاح کا پیغام دیا جائے۔ اگر کوئی اس سے نکاح کا خواہش مند ہے تو یہ عیب کی بات نہیں ہے، وہ اس کو اشارہ تو دے سکتا ہے مگر اس زمانۂ عدت میں وہ اس کے ساتھ اس تعلق سے کوئی عہد و پیمان نہیں کرسکتا ہے۔
یہاں اس رکوع میں رضاعت کے تعلق سے بھی ہدایتیں دی گئی ہیں اوربہت صاف لفظوں میں سمجھایا گیا ہے کہ مولود کو دودھ تو بہرحال پلایا جائے گا مگر باہمی مشورے اور تعاون کے ساتھ، اور اس دوران سارے اخراجات مرد ہی کے ذمے ہوں گے لیکن کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی، نہ مرد کے ساتھ اور نہ عورت کے ساتھ۔ یہاں کئی بار لفظ ’معروف‘ استعمال ہوا ہے یعنی وہ طور طریقہ اور دستور جو کسی بھی صالح معاشرہ میں نیکی اور بھلائی کی شکل میں موجود ہوتا ہے۔ معروف کی رعایت کسی بھی معاملہ سے نپٹنے میں انسان کو آسانی دیتی ہے اور بڑے بڑے مسائل آسانی اور خوبصورتی سے حل ہوجاتے ہیں۔٭
از: ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ
(15 مارچ 2024 )
No comments:
Post a Comment