نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف کر لوبلکہ نیکی
اس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر،آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب پر اور
نبیوں پر اور اس نے مال خرچ کیا اس کی محبت کے باوجود رشتے داروں پر
،یتیموں پر، مسکینوں پر، مسافروں پر، سوال کرنے والوں پر اور گردنوں کو
چھڑانے میں اور نماز قائم کی اور زکوٰة ادا کی اور وہ اپنے عہد کو پوراکرنے
والے ہیں جب بھی وہ عہد کریں اور صبر کرنے والے ہیں تنگ دستی اور تکلیف
میں اور جنگ کے وقت، یہی لوگ ہیں جنہوں نے سچ کہا اور یہی پرہیزگار لوگ
ہیں۔ (177) اے لوگو جوایمان لائے ہو! تم پرمقتولوں کا قصاص لینا فرض
ٹھہرایا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد ، غلام کے بدلے غلام اورعورت کے بدلے
عورت۔ پھر جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی مل جائے تو معروف طریقہ
کی پیروی کی جائے اور خوبی کے ساتھ ادائیگی کی جائے۔ یہ تمہارے رب کی طرف
سے ایک رعایت اور رحمت ہے، پھراس کے بعد بھی کسی نے زیادتی کی تو اس کیلئے
دردناک عذاب ہے۔ (178) اور اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں حیات ہے۔ امید
ہے کہ تم بچو گے۔ (179) تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت
کا وقت آجائے اور وہ اپنے پیچھے کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور قریبی
رشتہ داروں کیلئے معروف کے مطابق وصیت کردے، یہ لازمی حق ہے متقی لوگوں پر۔
(180) پھرجو اس کو بدل ڈالے اس کے بعد کہ اسے سن چکا ہو تو یقیناً ان ہی
لوگوں پر اس کا گناہ ہے جو اسے بدلیں،بے شک اللہ سننے والا،جاننے والاہے۔
(181) پھرجو کوئی اندیشہ محسوس کرے وصیّت کرنے والے سے کسی قسم کی طرف داری
یا گناہ کا، پھر وہ ان کے درمیان اصلاح کردے تو اس پرکوئی گناہ نہیں، بے
شک اللہ بخشنے والا،رحم کرنے والاہے۔ (182)
سورہ : بقرہ .... رکوع: 22 .... آیت: 177- 182 .... پارہ: 2
اس رکوع میں جہاں قتل پر قصاص اور موت کے وقت والدین اور قریبی رشتہ داروں
کیلئے ترکہ میں خاص وصیت کی تاکید کی گئی ہے وہیں نیکی، سچائی اور
پرہیزگاری کی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے۔ صرف قبلہ کی جانب رخ کرکے رکوع و
سجود کر لینا اور ایمان کی حقیقت سے دور رہ کر محض اس طرح جینا کہ کسی اور
کی طرف دیکھا نہ جائے، یہ نیکی اور پرہیزگاری نہیں ہے۔ نیکی ان تمام خوبیوں
کے مجموعہ کا نام ہے جو ایک صاحب ایمان آدمی کے اندر ضرور ہونا چاہئے۔
”نیکی صرف یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف کر لو بلکہ
نیکی اس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب پر
اور نبیوں پر اور اس نے مال خرچ کیا اس کی محبت کے باوجود رشتے داروں پر
،یتیموں پر، مسکینوں پر، مسافروں پر، سوال کرنے والوں پر اور گردنوں کو
چھڑانے میں اور نماز قائم کی اور زکوٰة ادا کی اور وہ اپنے عہد کو پورا
کرنے والے ہیں جب بھی وہ عہد کریں اور صبرکرنے والے ہیں تنگ دستی اور تکلیف
میں اور جنگ کے وقت، یہی لوگ ہیں جنہوں نے سچ کہا اور یہی پرہیزگار لوگ
ہیں۔“ ٭
از: ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ
(19 جنوری 2024 )
Monday, January 29, 2024
نیکی، سچائی اور پرہیزگاری نورِ قرآن23
حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ! نورِ قرآن 22
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور شیطان کے
قدموں کی پیروی مت کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (168) وہ تو بس
تمہیں برائی اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور یہ کہ تم اللہ کے نام پر وہ
باتیں کہو جن کے بارے میں تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔ (169) اور جب ان سے کہا
جاتا ہے کہ اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کی ہے تو وہ کہتے ہیں،
بلکہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا
ہے۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا تھوڑی سی عقل بھی نہ رکھتے ہوں اور نہ ہی
ہدایت پر ہوں۔ (170) اور ان لوگوں کی مثال جنہوں نے کفر کیا اس شخص کی مثال
جیسی ہے جو جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ پکار اور آواز کے سوا کچھ نہیں
سنتے۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں لہٰذا یہ کچھ سمجھ نہیں سکتے۔
(171) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم
کو دی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (172)
یقیناً اس نے تم پر حرام کیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس پر
اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پھر بھی جو مجبور ہوجائے اور وہ
بغاوت کرنے والا اور حد سے آگے بڑھنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں،
بے شک اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ (173) بے شک جو لوگ اس چیز کو
چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں سے نازل کیا ہے اور اس کے بدلے تھوڑی
قیمت حاصل کرتے ہیں، یہ لوگ اپنے پیٹوں میں صرف آگ بھر رہے ہیں۔ قیامت کے
دن اللہ ان سے کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا۔ اور ان کیلئے
دردناک عذاب ہے۔ (174) یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی کو
اور مغفرت کے بدلے میں عذاب کو خرید لیا ہے۔ تو وہ کس قدر آگ پر صبر کرنے
والے ہیں! (175) یہ اس لئے کہ اللہ نے کتاب کو یقیناً حق کے ساتھ نازل
فرمایا ہے اور بلاشبہ جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا ہے وہ بہت دور کی
مخالفت میں ہیں۔ (176)
سورہ : بقرہ .... رکوع: 21 .... آیت: 168- 176 .... پارہ: 2
اللہ تعالیٰ نے انسان کی بھوک مٹانے کیلئے ڈھیر ساری چیزیں پیدا فرمائی
ہیں۔ خدائے رحیم و کریم چاہتا ہے کہ اس کا بندہ مختلف لذت و رنگت اور حلاوت
و طراوت والی چیزیں کھا کر اپنی بھوک بھی مٹائے اور اپنی صحت و تندرستی کا
خیال بھی رکھے، اسی کے ساتھ وہ ہر لقمہ پر اپنے مہربان کا رب کا شکر گزار
ہو۔ شیطان نے ہر دور میں اس کو مختلف طریقوں سے بعض حلال و پاکیزہ چیزیں
کھانے سے روکنے بلکہ بعض دفعہ انتہائی گھٹیا اور گندی چیزیں کھانے پر مجبور
کیا ہے۔ قرآن میں اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے تعلق سے اس طرح کی کئی
چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے شیاطین جن و انس کی ایما پر بہت
ساری حلال چیزوں کو حرام کردیا تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کہا
ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائیں اور اپنے رب کا شکریہ ادا کریں۔
جو چیزیں انسانوں کیلئے حرام ہیں ان کا ذکر کردیا گیا ہے۔ اس تعلق سے مزید
تفصیلات آگے دوسری آیتوں میں بھی آئیں گی ۔اور جو لوگ قرآن کی سیدھی باتوں
کو بھی سمجھنے سے قاصر ہیں ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ گونگے، بہرے،
اندھے ہیں۔ وہ ان جانوروں کی طرح ہیں جو چرواہا کی ہانک پکار سنتے تو ہیں
مگر اس کا کوئی مطلب نہیں سمجھتے کیونکہ وہ عقل و خرد نہیں رکھتے۔ اور رہے
وہ لوگ جنہوں نے خدا کی شہادتوں کو چھپانے اور اس کی طرف غلط باتیں منسوب
کرنے کی کوشش کی ہے ان سے تو خدا اتنا ناراض ہے کہ وہ ان کی طرف دیکھنا اور
ان سے ہم کلام ہونا بھی پسند نہیں کرتا۔ ان کو جہنم کی آگ سے کوئی بچا
نہیں سکتا ہے۔ ٭
از: ڈاکٹر نور الصباح اسماعیل ندوی علیگ
(12جنوری 2024 )
Tuesday, January 9, 2024
Noor-e-Quran 21 Momin Allāh kā dīwānah hotā hai
Yaqīnan
āsmānon aur zamin kī takhlīq mein aur rāt din ke badalne mein aur un
kashtiyon mein jo insānon ko naf'a pahunchāne wālī cheezain le kar
samundar mein chaltī hain aur us pāni mein jis ko Allāh ne āsmān se
nāzil kiyā phir us se murdah zamin ko zindah kardiyā aur us mein har
qism ke jāndār phailādiye, aur hawāon kī gardish mein aur badal mein jo
āsmān aur zamin ke darmiyān musakhkhar hain, un logon ke liye bahut sārī
nishāniyān hain jo aqal se kām lete hain. (164) Aur logon mein se kuch
aise hain jo Allāh ke siwā doosron ko us ke barābar thehrāte hain, woh
un se us tarah mohabbat karte hain jis tarah Allāh se mohabbat karnī
chahiye. Aur jo īmān laaye hain woh sab se ziyādah Allāh se mohabbat
karte hain. Aur kāsh woh log jinhon ne zulm kiyā hai us waqt ko dekh
lein jab woh azāb ko dekhen ge to jān lein ke be shak quwwat sab ki sab
Allāh ke liye hai aur Allāh sakht azāb dene walā hai. (165) Jab woh log
jin ki peirvī kī gaī thī, un logon se bezār hojāyen ge jinhon ne peirvī
kī thī aur woh azāb ko dekh lein ge aur un ke sab ta'alluqāt toot jāyen
ge. (166) Aur jin logon ne peirvī kī thī woh kahen ge, kāsh hum ko phir
ek mauq'a diyā jātā to hum bhī un se usi tarah bezārī zāhir karte jis
tarah unhon ne hum se bezārī dikhāī hai. Is tarah Allāh un ke a'māl ko
unhen hasrat banā kar dikhāye gā aur woh aag se nikal nah pāyen ge.
(167)
Sūrah: Baqarah .... Rukū': 20 .... Āyat: 164- 167 .... Pārah: 2
Rahmān
o Rahīm Khudā'e Wāhid Allāh Subhānahu wa Ta'ālā kaun hai, kahān hai aur
Usey kaise dekhā aur samjhā jā saktā hai, yahān is jagah us kā jawāb
maujūd hai ke Khudā'e Alīm o Hakīm kāīnāt ke har hisse mein maujūd hai
aur insān agar apnī aqal kā istemāl kar sake to woh Us ke jalwe duniyā
kī har shay mein dekh sakta hai. Is mein kya shak hai ke Allāh ne har
insān ko aqal atā kī hai aur woh apne har ma'āmle mein apnī aqal istemāl
karta hai aur phir us kī aqal jo faislā sunāti hai wohī haṭtamī aur
yaqīnī baat hotī hai. Khudā kī zāt is kāīnāt kī sab se barī haqīqat hai
aur is baat ko har woh ādmī samajh sakta hai jo apnī aqal kā sahīh
istemāl kare aur zamin o āsmān kī banāwat mein, din o rāt ke āne jāne
mein, kashtiyon ke samundar kī satah par doṛne mein, āsmān se bārish ke
nāzil hone aur mukhtalif ashyā' aur jāndār ke paidā hone mein aur
baadalon ke zamin o āsmān ke darmiyān muallaq hone mein ghaur o fikr
kare. Jis tarah hamārī aqal din ko rāt nahīn kahti aur zamin ko āsmān
taslīm nahīn kar saktī usī tarah hamārī aqal hum ko yeh bhī bātāti hai
ke is kāīnāt kā koi khāliq o mālik bhī hai aur Woh akelā is duniyā kā
Hukmarān hai. Sharṭ bas yeh hai ke aqal salāmat ho aur insān us kā
durust istemāl kar sake. Rasūl Allāh ﷺ ke jadd e amjad Ibrāhīm Alaihis
Salām kā wāq'iah is silsilah mein behtarīn misāl hai ke un ko khudā kī
marifat us waqt hāsil huī jab unhon ne ashyā'e kāīnāt par ghaur o khouz
kiyā aur apnī aqal kā behtarīn istemāl kar key unhon ne khudā kī
marifat, qurbat aur mohabbat hāsil kī.
Jab insān khudā kī rahmat,
mohabbat aur 'azmat kā andāzah lagātā hai to woh apne āp ko us kī shadīd
mohabbat mein ghirā huā pātā hai aur apnā sar aur dil sirf usī ke āge
jhukāne par majboor hojātā hai. Yahan un logon par hairat zāhir kī gaī
hai jo Allāh ke siwā doosron ko bhī ma'būd banā lete hain aur un se us
tarah mohabbat karte hain jaisī mohabbat sirf aur sirf Allāh Rahmān o
Rahīm kā haq hai. Yahan Allāh Ta'ālā ne sāf lafzon mein yeh bāt bayān
farmāī hai ke woh ādmī jis ke dil mein khudā ke siwā kisī aur kī
mohabbat ho woh momīn nahīn ho saktā hai. Mohabbat Ilāhī īmān kā woh
buniyādī aur lāzimī taqāzā hai jis ke baghair koī sāhib e īmān nahīn ho
saktā hai. Woh log jo Allāh ke siwā doosron se mohabbat karte aur un se
ummīd lagāye baithe hain, kal Qiyāmat ke din un kī hasrat o na'umīdī kī
koī intehā nahīn hogī jab woh yeh dekh lein ge ke un kī sārī 'aqīdaten,
mohabbaten aur 'ibādaten rā'igān chalī gayīn aur woh jin se ummīd lagāye
baithe the unhon ne un se apnā dāman jhāṛ liyā.
By: Dr. Noorus Sabah Ismail (Nadwi, Alig)
7 January 2024
نورِ قرآن 21 مومن اللہ کا دیوانہ ہوتا ہے
یقینا
آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں
جو انسانوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں لے کر سمندر میں چلتی ہیں اور اُس
پانی میں جس کو اللہ نے آسمان سے نازل کیا پھر اس سے مردہ زمین کو زندہ
کردیا اور اس میں ہر قسم کے جاندار پھیلادیے، اور ہواؤں کی گردش میں اور
بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان لوگوں کیلئے بہت ساری
نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ (164) اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں
جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کے برابر ٹھہراتے ہیں، وہ ان سے اس طرح محبت
کرتے ہیں جس طرح اللہ سے محبت کرنی چاہئے۔ اور جو ایمان لائے ہیں وہ سب سے
زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ او ر کاش وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا ہے اس وقت
کو دیکھ لیں جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو جان لیں کہ بے شک قوت سب کی سب
اللہ کیلئے ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ (165) جب وہ لوگ جن کی
پیروی کی گئی تھی، ان لوگوں سے بے زار ہوجائیں گے جنہوں نے پیروی کی تھی
اور وہ عذاب کو دیکھ لیں گے اور ان کے سب تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ (166) اور
جن لوگوں نے پیروی کی تھی وہ کہیں گے، کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو
ہم بھی ان سے اسی طرح بے زار ی ظاہر کرتے جس طرح انہوں نے ہم سے بے زاری
دکھائی ہے۔ اس طرح اللہ ان کے اعمال کو انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا اور وہ
آگ سے نکل نہ پائیں گے۔ (167)
سورہ : بقرہ .... رکوع: 20 .... آیت: 164- 167 .... پارہ: 2
رحمان و رحیم خدائے واحد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کون ہے، کہاں ہے اور اسے
کیسے دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے، یہاں اس جگہ اس کا جواب موجود ہے کہ خدائے
علیم و حکیم کائنات کے ہر حصے میں موجود ہے اور انسان اگر اپنی عقل کا
استعمال کرسکے تو وہ اس کے جلوے دنیا کی ہر شے میں دیکھ سکتا ہے۔ اس میں
کیا شک ہے کہ اللہ نے ہر انسان کو عقل عطا کی ہے اور وہ اپنے ہر معاملے میں
اپنی عقل استعمال کرتا ہے اور پھر اس کی عقل جو فیصلہ سناتی ہے وہی حتمی
اور یقینی بات ہوتی ہے۔ خدا کی ذات اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور اس
بات کو ہر وہ آدمی سمجھ سکتا ہے جو اپنی عقل کا صحیح استعمال کرے اورزمین و
آسمان کی بناوٹ میں، دن و رات کے آنے جانے میں، کشتیوں کے سمندر کی سطح پر
دوڑنے میں، آسمان سے بارش کے نازل ہونے اور مختلف اشیاء اور جاندار کے
پیدا ہونے میں اور بادلوں کے زمین و آسمان کے درمیان معلق ہونے میں غور و
فکر کرے۔ جس طرح ہماری عقل دن کو رات نہیں کہتی اور زمین کو آسمان تسلیم
نہیں کرسکتی اسی طرح ہماری عقل ہم کو یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کائنات کا کوئی
خالق و مالک بھی ہے اور وہ اکیلا اس دنیا کا حکمراں ہے۔ شرط بس یہ ہے کہ
عقل سلامت ہو اور انسان اس کا درست استعمال کرسکے۔ رسول اللہ ﷺ کے جد امجد
ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اس سلسلہ میں بہترین مثال ہے کہ ان کو خدا کی
معرفت اس وقت حاصل ہوئی جب انہوں نے اشیائے کائنات پر غور و خوض کیا اور
اپنی عقل کا بہترین استعمال کرکے انہوں نے خدا کی معرفت، قربت اور محبت
حاصل کی۔
جب انسان خدا کی رحمت، محبت اور عظمت کا اندازہ لگاتا ہے تو
وہ اپنے آپ کو اس کی شدید محبت میں گھرا ہوا پاتا ہے اور اپنا سر اور دل
صرف اسی کے آگے جھکانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہاں ان لوگوں پر حیرت ظاہر کی
گئی ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کو بھی معبود بنالیتے ہیں اور ان سے اس طرح
محبت کرتے ہیں جیسی محبت صرف اور صرف اللہ رحمان و رحیم کا حق ہے۔ یہاں
اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ وہ آدمی جس کے دل
میں خدا کے سوا کسی اور کی محبت ہو وہ مومن نہیں ہوسکتا ہے۔ محبت الٰہی
ایمان کا وہ بنیادی اور لازمی تقاضا ہے جس کے بغیر کوئی صاحب ِ ایمان نہیں
ہوسکتا ہے۔ وہ لوگ جو اللہ کے سوا دوسروں سے محبت کرتے اور ان سے امید
لگائے بیٹھے ہیں کل قیامت کے دن ان کی حسرت و ناامیدی کی کوئی انتہا نہیں
ہوگی جب وہ یہ دیکھ لیں گے کہ ان کی ساری عقیدتیں، محبتیں اور عبادتیں
رائیگاں چلی گئیں اور وہ جن سے امید لگائے بیٹھے تھے انہوں نے ان سے اپنا
دامن جھاڑ لیا۔ ٭
از: ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ
(5جنوری 2024 )
Square Day Fun: A Shape-Filled Adventure for Toddlers
Square Day Fun: A Shape-Filled Adventure for Toddlers On October 30, 2024, our Pre-Primary Department at Jibreel International School cele...

-
JIBREEL INTERNATIONAL SCHOOL is an English Medium School. Besides the general national level syllabus and curriculum consisting of General ...
-
اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے۔ (168) و...
-
Square Day Fun: A Shape-Filled Adventure for Toddlers On October 30, 2024, our Pre-Primary Department at Jibreel International School cele...